جیو نیوز کے پروگرام ’آج شاہ زیب خانزادہ کے ساتھ‘ میں گفتگو کرتے ہوئے سینیئر تجزیہ نگار منیب فاروق نے تحریک انصاف کے بانی عمران خان سے متعلق اہم گفتگو کی۔
پروگرام ’آج شاہ زیب خانزادہ کے ساتھ‘ کے میزبان شاہ زیب خانزادہ نے سوال کیا کہ ’آپ نے خبر دی کہ بہت خیال کیا جارہا ہے کہ شاید اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ پی ٹی آئی کا بریک تھرو ہوگیا ایسا ہے نہیں،عمران خان اس دن بڑے خوش تھے آج بہت سخت تنقید کی اور فوجی قیادت پر الزام لگایا مجھے کچھ ہوا تو یہ لوگ ذمہ دار ہوں گے؟ اچانک کیا ہوا؟
اس کے جواب میں منیب فاروق کا کہنا تھاکہ ’معاملہ ایسا ہے کہ بحیثیت صحافی سچائی جاننے کی کوشش کرتے ہیں کچھ فیکٹس کو کریدنے کی کوشش کی جس میں بہت سے لوگ شامل تھے کچھ چیزیں سامنے آئیں، جلسے کو مؤخر کرنے کیلئے انتظامیہ نے ضرور رابطہ کیا تھا پی ٹی آئی سے، کسی سول شخصیت سے جب میری بات ہوئی انتظامی معاملات میں بہت اہم تھے، انہوں نے بتایاکہ اس اس شخص سے ہماری بات ہوئی، گنڈاپور کو بھی اعتماد میں لیا گیا اور باقاعدہ طور پر ان کی ملاقات بھی عمران خان سے کروائی گئی۔
تجزیہ کار کا کہنا تھاکہ ’اس معاملے کے اندر پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ یا آئی ایس آئی کی انوالومنٹ انٹیلی جنس شیئرنگ تک تھی یا سکیورٹی کنسرنز کے حوالے سے معاملات بتانے تک تھی، عمران خان کو مل کر نہ ہی کسی نے ڈائریکٹ بات کی ہے، صرف اعظم سواتی اور بیرسٹرگوہر کے ساتھ تشریف لے گئے، وہاں بات ہوئی واپس آئے نہ عمران خان سے زور زبردستی کی بلکہ بتایا گیا یہ حالات ہیں شاید کام خراب ہوجائے گا‘۔
منیب فاروق نے گفتگو کرتے ہوئے بتایاکہ ’عمران خان سے براہ راست کوئی ملا نا ہی ان سے کسی نے کوئی بات کی، نا ہی کوئی فیور مانگی، میں سمجھتا ہوں عمران خان نے اچھا فیصلہ کیا، عمران خان سے متعلق جو پالیسی ہے یہی ہے نا آپ سے بات ہوگی، نا ہی آپ کو کوئی ریلیف ملے گا، نا ہی آپ سے کسی قسم کا کوئی رابطہ کرے گا بلکہ اس بات کی وضاحت کیلئے بہت سے لوگوں سے بات کی گئی تو سخت رسپانس آیا کہ کس نے جھوٹ پھیلانا شروع کیا ہے؟ ہم جیسے لوگوں نے کہا جھوٹ ہے جو بھی ہے ظاہر ہے حکومت سیاسی لیڈر سے بات کرے گی تو اس سے کہے گی جلسہ ملتوی کردو سے ایشو تو ہوگا تو اس کے نتیجے میں جواب یہ آیا کہ نہیں نہیں ایسی کوئی بات نہیں انتظامیہ سے ضرور اسٹیبلشمنٹ کا رابطہ ہوتا ہے، عمران خان سے براہ راست اسٹیبلشمنٹ کا رابطہ تھا نا ہی ہوگا، عمران خان کو نا ہی کوئی ریلیف ہے نا ہی ہماری کوئی ان سے بات چیت ہوگی بلکہ یہ معاملہ جس طرف جا رہا ہے اپنے منطقی انجام کو پہنچے گا‘۔
تجزیہ کار بتایاکہ’ساتھ ساتھ انہوں نے یہ بھی ذہن میں رکھ لیں فیض حمید کا معاملہ ہے ایسا تاثر غلط ہے کہ اب تفتیش ہو رہی ہے، تفتیش مکمل ہوچکی ہے اب تو صرف پروسس مکمل کیا جا رہا ہے، جیسے یہ عمل پورا ہوگا اس کے نتیجے میں سزا بھی آجائے گی اور سزا تو ہر صورت ہوگی صرف اس کا تعین ہونا باقی ہے کہ وہ کتنی ہوگی‘۔